غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
by منیرؔ شکوہ آبادی

غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
مرتے ہیں مگر ناز مسیحا نہیں اٹھتا

کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا

بل پڑتے ہیں پہونچے میں لچکتی ہے کلائی
نازک ہیں بہت پھولوں کا گجرا نہیں اٹھتا

فرمائیے ارشاد پہاڑوں کو اٹھا لوں
پر رشک کا صدمہ نہیں اٹھتا نہیں اٹھتا

کوچہ میں منیرؔ ان کے میں بیٹھا تو وہ بولے
ہے ہے مرے دروازے سے پہرا نہیں اٹھتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse