غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
by عابد علی عابد

غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا

لذت عرض وفا راحت جاں ہے کہ جو تھی
دل تپاں اشک رواں شوق جواں ہے کہ جو تھا

شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب
لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا

میرے پاؤں سے ہیں الجھے ہوئے ریشم کے سے تار
ہمدمو یہ تو وہی بند گراں ہے کہ جو تھا

عشق کی طرز تکلم وہی چپ ہے کہ جو تھی
لب خوش گوئے ہوس محو بیاں ہے کہ جو تھا

راہرو دشت میں فریاد کناں ہیں کہ جو تھا
خندہ زن قافلہ راہ براں ہے کہ جو تھا

مغبچے خوش ہیں کہ بزم ان کی ہے ساقی ان کا
بر سر کار وہی پیر مغاں ہے کہ جو تھا

جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے
شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا

حلقۂ وعظ سے اب تک ہے گریزاں دنیا
حلقۂ زلف مدار دو جہاں ہے کہ جو تھا

میرے ہنسنے پہ خفا تھے مرے رونے پہ ہنسے
وہی رنگ ستم عشوہ گراں ہے کہ جو تھا

سنگ طفلاں سے ذرا بچ کے رہے قصر بلند
یہ وہی کار گہ شیشہ گراں ہے کہ جو تھا

دوستو ہم نفسو سنتے ہو عابدؔ کی غزل
یہ وہی شعلہ نوا سوختہ جاں ہے کہ جو تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse