غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں
by شکیب جلالی

غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں
جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں

اوس کی بوندوں میں بکھرا ہوا منظر جیسے
سب کا اس دور میں یہ حال ہے میرا ہی نہیں

برق کیوں ان کو جلانے پہ کمر بستہ ہے
میں تو چھاؤں میں کسی پیڑ کی بیٹھا ہی نہیں

اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا
کون سا عرش ہے جس کا کوئی زینہ ہی نہیں

کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئنہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں

بوجھ لمحوں کا ہر اک سر پہ اٹھائے گزرا
کوئی اس شہر میں سستانے کو ٹھہرا ہی نہیں

سایہ کیوں جل کے ہوا خاک تجھے کیا معلوم
تو کبھی آگ کے دریاؤں میں اترا ہی نہیں

موتی کیا کیا نہ پرے ہیں تہ دریا لیکن
برف لہروں کی کوئی توڑنے والا ہی نہیں

اس کے پردوں پہ منقش تری آواز بھی ہے
خانۂ دل میں فقط تیرا سراپا ہی نہیں

حائل راہ تھے کتنے ہی ہوا کے پربت
تو وہ بادل کہ مرے شہر سے گزرا ہی نہیں

یاد کے دائرے کیوں پھیلتے جاتے ہیں شکیبؔ
اس نے تالاب میں کنکر ابھی پھینکا ہی نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse