غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا
by داغ دہلوی

غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا
غافل کو ہوشیار کیا ہم نے کیا کیا

ہاں ہاں تڑپ تڑپ کے گزاری تمہیں نے رات
تم نے ہی انتظار کیا ہم نے کیا کیا

اترا رہا ہے نقد محبت پہ دل بہت
اچھے کو مال دار کیا ہم نے کیا کیا

کہتے ہیں وہ شکایت بیداد و جور پر
تجھ کو خدا نے خوار کیا ہم نے کیا کیا

ناصح بھی ہے رقیب یہ معلوم ہی نہ تھا
کس کو صلاح کار کیا ہم نے کیا کیا

رسوا کیا جو دل نے تو اب کہہ رہے ہیں داغؔ
دشمن کو رازدار کیا ہم نے کیا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse