غمزۂ چشم شرمسار کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
by میر سوز

غمزۂ چشم شرمسار کہاں
سر تو حاضر ہے تیغ یار کہاں

گل بھی کرتا ہے چاک اپنا جیب
پر گریباں سا تار تار کہاں

ہو غزالوں کو اس سے ہم چشمی
تیکھی چتون کہاں خمار کہاں

عندلیبوں نے گل کو گھیر لیا
ایک جیوڑا کہاں ہزار کہاں

ایک دن ایک شخص نے پوچھا
میر صاحب تمہارا یار کہاں

میں نے اس سے کہا کہ سن بھائی
اب مجھے اس تلک ہے بار کہاں

گاہ گاہے سلام کرتا ہے
پر وہ باتیں کہاں وہ پیار کہاں

زندگی تک ستم تو سہہ لے سوزؔ
پھر تو یہ ظلم بار بار کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse