غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
by عزیز لکھنوی

غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
یہ جنس مشترک ہے جو کبھی ان کی کبھی میری

حجاب اٹھتے چلے جاتے ہیں اور میں بڑھتا جاتا ہوں
کہاں تک مجھ کو لے جاتی ہے دیکھوں بے خودی میری

توہم تھا مجھے نقش دوئی کس طرح مٹتا ہے
نقاب رخ الٹ کر اس نے صورت کھینچ دی میری

ادھر بھی اڑ کے آ خاکستر دل منتظر میں ہوں
لگا لوں تجھ کو آنکھوں سے تو ہی ہے زندگی میری

عزیزؔ اک دن مجھے یہ رازداری ختم کر دے گی
کسی نے بات ادھر کی اور رنگت اڑ گئی میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse