غضب ہے سرمہ دے کر آج وہ باہر نکلتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غضب ہے سرمہ دے کر آج وہ باہر نکلتے ہیں
by بھارتیندو ہریش چندر

غضب ہے سرمہ دے کر آج وہ باہر نکلتے ہیں
ابھی سے کچھ دل مضطر پر اپنے تیر چلتے ہیں

ذرا دیکھو تو اے اہل سخن زور صناعت کو
نئی بندش ہے مجنوں نور کے سانچے میں ڈھلتے ہیں

برا ہو عشق کا یہ حال ہے اب تیری فرقت میں
کہ چشم خونچکاں سے لخت دل پیہم نکلتے ہیں

ہلا دیں گے ابھی اے سنگ دل تیرے کلیجے کو
ہماری آہ آتش بار سے پتھر پگھلتے ہیں

ترا ابھرا ہوا سینہ جو ہم کو یاد آتا ہے
تو اے رشک پری پہروں کف افسوس ملتے ہیں

کسی پہلو نہیں چین آتا ہے عشاق کو تیرے
تڑپتے ہیں فغاں کرتے ہیں اور کروٹ بدلتے ہیں

رساؔ حاجت نہیں کچھ روشنی کی کنج مرقد میں
بجائے شمع یاں داغ جگر ہر وقت جلتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.