غصہ بیگانہ وار ہونا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غصہ بیگانہ وار ہونا تھا
by مومن خان مومن

غصہ بیگانہ وار ہونا تھا
بس یہی تجھ سے یار ہونا تھا

کیا شب انتظار ہونا تھا
ناحق امیدوار ہونا تھا

کیوں نہ ہوتے عزیز غیر تمہیں
میری قسمت میں خوار ہونا تھا

مجھ سے جنت میں وہ صنم نہ ملا
حشر اور ایک بار ہونا تھا

گر نہ تھی اے دل اس کے رنج کی تعب
کیوں شکایت گزار ہونا تھا

خاک ہوتا نہ میں تو کیا کرتا
اس کے در کا غبار ہونا تھا

ہرزہ گردی سے ہم ذلیل ہوئے
چرخ کا اعتبار ہونا تھا

مرگ شام وصال حرماں ہے
صبح دم جاں نثار ہونا تھا

اور سے ہمکنار ہے دشمن
آج تو ہمکنار ہونا تھا

شکوۂ دہر پر کہا تم کو
آفت روزگار ہونا تھا

چشم بے اختیار جاناں میں
کیا مرا اختیار ہونا تھا

صبر کر صبر ہو چکا جو کچھ
اے دل بے قرار ہونا تھا

کوئے دشمن میں جا پکڑتا کیوں
کیا مجھے شرمسار ہونا تھا

وہ نمک پاش بھی نہیں ہوتے
یوں ہی دل کو فگار ہونا تھا

خاک میں حیف یہ شراب ملے
محتسب بادہ خوار ہونا تھا

نہ گیا تیر نالہ سوئے رقیب
مرغ عرشی شکار ہونا تھا

رات دن بادہ و صنم مومنؔ
کچھ تو پرہیزگار ہونا تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse