غش بھی آیا مری پرسش کو قضا بھی آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غش بھی آیا مری پرسش کو قضا بھی آئی
by ثاقب لکھنوی

غش بھی آیا مری پرسش کو قضا بھی آئی
بے مروت تجھے کچھ شرم و حیا بھی آئی

موسم حسن تو تھا فصل جفا بھی آئی
ساتھ ہی ساتھ جوانی کی ادا بھی آئی

دم کا آنکھوں میں اٹکنا بھی مبارک نہ ہوا
وقت کی بات تم آئے تو قضا بھی آئی

میں شب وصل یہ سمجھا کہ سحر بھی کچھ ہے
وہ جو آئے تو موذن کی صدا بھی آئی

ان مریضوں کی عیادت کو وہ اب نکلے ہیں
موت جا کر جنہیں مٹی میں ملا بھی آئی

کر دیا سوز دروں نے مجھے شمع سر بزم
بن گئی دم پہ اگر پاس ہوا بھی آئی

کان یوں ان کے بھرے ہیں مری فریادوں نے
نالے سمجھے جو کوئی اور صدا بھی آئی

پھر بھی ثاقبؔ نہ اڑی طالع خفتہ کی نیند
آہ جا کر مری گردوں کو ہلا بھی آئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse