غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
Appearance
غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
کہ حالت مجھے غش کی آئی نہیں
زباں سے ہماری ہے صیاد خوش
ہمیں اب امید رہائی نہیں
کتابت گئی کب کہ اس شوخ نے
بنا اس کی گڈی اڑائی نہیں
نسیم آئی میرے قفس میں عبث
گلستاں سے دو پھول لائی نہیں
مری دل لگی اس کے رو سے ہی ہے
گل تر سے کچھ آشنائی نہیں
نوشتے کی خوبی لکھی کب گئی
کتابت بھی ایک اب تک آئی نہیں
جدا رہتے برسوں ہوئے کیونکہ یہ
کنایہ نہیں بے ادائی نہیں
گلہ ہجر کا سن کے کہنے لگا
ہمارے تمہارے جدائی نہیں
سیہ طالعی میری ظاہر ہے اب
نہیں شب کہ اس سے لڑائی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |