غریب ہم ہیں غریبوں کی بھی خوشی ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غریب ہم ہیں غریبوں کی بھی خوشی ہو جائے
by ریاض خیرآبادی

غریب ہم ہیں غریبوں کی بھی خوشی ہو جائے
نظر حضور ادھر بھی کبھی کبھی ہو جائے

غرور بھی جو کروں میں تو عاجزی ہو جائے
خودی میں لطف وہ آئے کہ بے خودی ہو جائے

غم فراق کی سختی وصال سے بدلے
جو موت آئے مجھے میری زندگی ہو جائے

مری شراب کی کیا قدر تجھ کو اے واعظ
جسے میں پی کے دعا دوں وہ جنتی ہو جائے

میں اس نگاہ کے صدقے یہ ہو اثر جس میں
کہ دل میں درد بھی اٹھے تو گدگدی ہو جائے

ستم بھی ہو تو ستم میں وہ لطف پنہاں ہو
کہ نالہ آ کے مرے ہونٹھ پر ہنسی ہو جائے

نہ پوچھو بادہ گساران بزم وارثؔ کی
یہ دیکھ لیں سوئے واعظ تو وہ ولی ہو جائے

ہٹا رہا ہوں شب و روز اس لیے خود کو
فنا کے راز سے مجھ کو بھی آگہی ہو جائے

تری نگاہ کرم سے عجب نہیں وارث
ریاضؔ سا سگ دنیا بھی آدمی ہو جائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse