غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
by شاہ نصیر

غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
بحر حسن کے ہیں یہ بھنور دو کان کا بالا زلف کا حلقہ

ہالۂ مہ پہنچے ہے نہ اس کو نے خط ساغر اس کو لگے ہے
آئینہ تم لے کر دیکھو کان کا بالا زلف کا حلقہ

آہوئے دل اور طائر جاں کے حق میں یہ دونوں پھندے ہیں
ہم کو دکھا کر تم نہ چھپاؤ کان کا بالا زلف کا حلقہ

آج سوائے شانے کے یاں کس کا منہ ہے کون ہے ایسا
چھوڑے تمہارے چہرے پر جو کان کا بالا زلف کا حلقہ

دونوں تیرے عارض پر دن رات ملے یہ رہتے ہیں
عینک مہر و ماہ نہ کیوں ہو کان کا بالا زلف کا حلقہ

طیش زنی میں یہ عقرب ہے کالا ہے وہ کنڈلی مارے
حضرت دل باز آؤ نہ چھیڑو کان کا بالا زلف کا حلقہ

کس کو حصار حسن کہوں میں کس کو خط پرکار کہے دل
منہ سے الٹ برقع کو دکھا دو کان کا بالا زلف کا حلقہ

یہ ترے رخ کے بوسے لیں اور ترسیں مری آنکھیں اے وائے
دیکھ کے کیوں رشک آئے نہ مجھ کو کان کا بالا زلف کا حلقہ

آج زلیخا گر یہاں ہوتی دام کمند و چاہ میں پھنستی
دیکھ مرے یوسف کا عزیزو کان کا بالا زلف کا حلقہ

کیونکہ نصیرؔ ارباب سخن تحسیں نہ کریں سن کر یہ غزل
جبکہ تم اس صورت سے باندھو کان کا بالا زلف کا حلقہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse