غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
by داغ دہلوی

غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
اے داغؔ پر زمانے سے دست سوال کھینچ

نازک بہت ہے رشتہ الفت نہ ٹوٹ جائے
اتنا نہ اپنے آپ کو اے مہ جمال کھینچ

ہو جائے تو نہ طائر دل کی طرح اسیر
صیاد اپنی سمت کو آہستہ جال کھینچ

کھینچی تھی جب مصور قدرت نے دل کی شکل
کہتا یہ کون تو نہ اسے بے خیال کھینچ

وہ ٹھنڈے ٹھنڈے چین سے گھر کو چلے گئے
لے اور آہ سرد دل پر ملال کھینچ

ناصح قمار گاہ محبت میں جی نہ ہار
دل کو لگا کے نفع اٹھا خوب مال کھینچ

اے داغؔ جذب عشق کی دیکھیں گے اب کشش
کی اس کشیدہ رو نے تو ہم سے کمال کھینچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse