غدر کی تصویر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غدر کی تصویر
by حسن نظامی

اللہ اللہ! زمانہ کے نشیب و فراز میں کتنے پر حسرت نظارے ہیں۔ یہی دہلی جو اپنی گود میں ہزاروں ارمان بھرے دلوں کا خون بہتا دیکھ چکی ہے، رہ رہ کے پلٹے کھاتی اور رنگ دکھاتی ہے۔ ایک دن وہ تھا کہ بابر کی تلوار نے ابراہیم لودھی کا خون دہلی کے ریگستان کو پلایا اور اس کے اہل و عیال کو حسرت و یاس کی مجسم تصویر بنا ہوا سامنے دست بستہ کھڑا دیکھا یا ایک دن ایسا آیا کہ اسی کی اولاد اپنے اعمال کی بدولت ان بیکسوں کا نمونہ بنی۔

آہ! دہلی دربار کی نمائش گاہ میں داخل ہوتے ہی ایک تصویر پر نظر پڑی، جس میں بزم تیموری کی گل ہونے والی شمع ابو ظفر بہادر شاہ مقبرہ ہمایوں میں میجر ہارسن کے ہاتھوں گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ پشت پر ہمایوں کا مقبرہ نظر آتا ہے، جس پر کچھ عجیب دلگیر افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ بہادر شاہ عبا پہنے ہوئے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں عصا ہے۔ چہرہ پر غم و الم میں ڈوبا ہوا بڑھا پے کا رنگ اور متحملا نہ یاس کا عالم ہے۔ میجر ہارسن سرخ و ردی پہنے بادشاہ کا دامن پکڑ کر کھڑے ہیں اور ان کے دو ہمراہی بادشاہ کی پشت پر نظر آتے ہیں۔ میجر ہارسن کی اس بیباکانہ جرأت پر بہادر شاہ کا ایک بوڑھا جاں نثار تلوار سوت کر لپکتا ہے۔ ہاتھ میں ڈھال ہے مگر بشرہ نڈھال۔ قریب پہنچتے پہنچتے برابر والا سولجر پستول سامنے کر کے اس کا بڑھا ہوا حوصلہ پست اور جوش انتقام سرد کر دیتا ہے۔

افسوس ہے کہ دنیا کے اس مصیبت خیز انجام پر بھی لوگوں کو اس کی ہوس باقی ہے۔ چلتے وقت ’’دیوان ِ حافظ‘‘ کا دم بخود کھلا ہوا ایک ورق نظر پڑا، جس کی پہلی سطر تھی،

آخر نظر بسوئے ما کن
اے دولت و حسرت عام

یہ پڑھتا ہوا باہر آیا اور اس مرقع کو مخاطب کر کے اس شعر کو دہرایا۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse