عیش کے رنگ ملالوں سے دبے جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عیش کے رنگ ملالوں سے دبے جاتے ہیں
by مضطر خیرآبادی

عیش کے رنگ ملالوں سے دبے جاتے ہیں
اب تو ہم اپنے ہی حالوں سے دبے جاتے ہیں

پاؤں رکھنا مجھے صحرا میں بھی دشوار ہے اب
سارے کانٹے مرے چھالوں سے دبے جاتے ہیں

توبہ توبہ وہ مرے خواب میں کیا آئیں گے
جاگتے میں جو خیالوں سے دبے جاتے ہیں

اللہ اللہ ری نزاکت ترے رخساروں کی
اتنے نازک ہیں کہ کھالوں سے دبے جاتے ہیں

تو ہے کوٹھے پہ تو کترا کے نکلتی ہے گھٹا
کالے بادل ترے بالوں سے دبے جاتے ہیں

کیا دبائیں گے ابھر کر ترے جوبن ظالم
یہ تو خود دیکھنے والوں سے دبے جاتے ہیں

ان کو اے شوق طلب چھیڑ کے محجوب نہ کر
جو محبت کے خیالوں سے دبے جاتے ہیں

بے طرح بار محبت تو پڑا ہے ان پر
آپ کیوں چاہنے والوں سے دبے جاتے ہیں

بار ہوں دیدۂ ارباب سخن پر مضطرؔ
مدعی میرے کمالوں سے دبے جاتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse