عیش کے جلسے ہجوم آلام کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
by اسماعیل میرٹھی

عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
شعبدے ہیں گردش ایام کے

ہمت مردانہ تجھ کو آفریں
کر کے چھوڑا سر ہوئے جس کام کے

صبح کے بھولے تو آئے شام کو
دیکھیے کب آئیں بھولے شام کے

تو ہی کر تکلیف او پیک صبا
منتظر ہیں وہ مرے پیغام کے

حاشا للہ مے کدہ کے کاسے لیں
معتقد ہوں زاہد علام کے

مٹ گئی ہے دل سے آزادی کی یاد
کتنے خوگر ہو گئے ہم دام کے

اب تو چرچے جا بجا ہونے لگے
واعظوں کی بانگ بے ہنگام کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse