عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
Appearance
عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
شادمانی گر ہوئی تو زندگانی پھر کہاں
جس قدر پینا ہو پی لے پانی ان کے ہاتھ سے
آب جنت تو بہت ہوگا یہ پانی پھر کہاں
لذتیں جنت کے میوے کی بہت ہوں گی وہاں
پھر یہ میٹھی گالیاں خوباں کی کھانی پھر کہاں
واں تو ہاں حوروں کے گہنے کے بہت ہوں گے نشاں
ان پری زادوں کے چھلوں کی نشانی پھر کہاں
الفت و مہر و محبت سب ہیں جیتے جی کے ساتھ
مہرباں ہی اٹھ گئے یہ مہربانی پھر کہاں
واعظ و ناصح بکیں تو ان کے کہنے کو نہ مان
دم غنیمت ہے میاں یہ نوجوانی پھر کہاں
جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |