عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
by نظیر اکبر آبادی

عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
شادمانی گر ہوئی تو زندگانی پھر کہاں

جس قدر پینا ہو پی لے پانی ان کے ہاتھ سے
آب جنت تو بہت ہوگا یہ پانی پھر کہاں

لذتیں جنت کے میوے کی بہت ہوں گی وہاں
پھر یہ میٹھی گالیاں خوباں کی کھانی پھر کہاں

واں تو ہاں حوروں کے گہنے کے بہت ہوں گے نشاں
ان پری زادوں کے چھلوں کی نشانی پھر کہاں

الفت و مہر و محبت سب ہیں جیتے جی کے ساتھ
مہرباں ہی اٹھ گئے یہ مہربانی پھر کہاں

واعظ و ناصح بکیں تو ان کے کہنے کو نہ مان
دم غنیمت ہے میاں یہ نوجوانی پھر کہاں

جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse