عیش و عشرت سب سہی یہ دم نہیں تو کچھ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عیش و عشرت سب سہی یہ دم نہیں تو کچھ نہیں
by ریاض خیرآبادی

عیش و عشرت سب سہی یہ دم نہیں تو کچھ نہیں
ایک دنیا ہو تو کیا جب ہم نہیں تو کچھ نہیں

سرمگیں آنکھوں میں اشک غم نہیں تو کچھ نہیں
دست رنگیں سے مرا ماتم نہیں تو کچھ نہیں

صبح کو شب کے ستانے کا گلہ شکوہ عبث
جب پریشاں گیسوئے برہم نہیں تو کچھ نہیں

عشق سے تھوڑا بہت تو ہے ہر انساں کو لگاؤ
دل میں کچھ کچھ درد کچھ کچھ غم نہیں تو کچھ نہیں

اس کمر پر اس نزاکت پر یہ سیدھی چال کیوں
بل نہیں تو کچھ نہیں کچھ خم نہیں تو کچھ نہیں

اس کی شوخی نے اسے اے دل چھپا رکھا کہاں
حشر میں وہ فتنۂ عالم نہیں تو کچھ نہیں

ملنے والوں کا بہم مل بیٹھنا بھی لطف ہے
جمگھٹے شب کو سر زمزم نہیں تو کچھ نہیں

اس کی رونق اور ہے اس کا اثر کچھ اور ہے
ان کی محفل میں مرا ماتم نہیں تو کچھ نہیں

پیارے پیارے اچھے اچھے منہ سے ہاں کہہ دے کبھی
تیرے صدقے یہ تری ہر دم نہیں تو کچھ نہیں

بال کھولے تم نے تو کیا چوڑیاں توڑیں تو کیا
میرے مرنے کا جو دل سے غم نہیں تو کچھ نہیں

بات جس کی تھی گئی ساقی وہ اس کے دم کے ساتھ
جام جم ہو بھی تو کیا جب ہم نہیں تو کچھ نہیں

پھوٹ کر رونا نہیں تو پھوٹ ہی جائیں ریاضؔ
کام کے جب دیدۂ پر نم نہیں تو کچھ نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse