عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے
by تاباں عبد الحی

عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے
مردہ دل وہ ہوتا ہے جو کہ شیح فانی ہے

جب تلک رہے جیتا چاہئے ہنسے بولے
آدمی کو چپ رہنا موت کی نشانی ہے

جو کہ تیرا عاشق ہے اس کا اے گل رعنا
رنگ زعفرانی ہے اشک ارغوانی ہے

آہ کی نہیں طاقت تاب نہیں ہے نالے کی
ہجر میں ترے ظالم کیا ہی ناتوانی ہے

چار دن کی عشرت پر دل لگا نہ دنیا سے
کہتے ہیں کہ جنت میں عیش جاودانی ہے

گل رخاں کا آب و رنگ دیکھنے سے میرے ہے
حسن کی گلستاں کی مجھ کو باغبانی ہے

دل سے کیوں نہیں چاہوں یار کو کہ اے تاباںؔ
دل ربا ہے پیارا ہے جیوڑا ہے جانی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse