عید کا دن (سید احمد خان)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عید کا دن
by سید احمد خان

السلام علیکم، عید مبارک ہو۔ و علیکم السلام، آپ کو بھی مبارک ہو۔ مصافحہ کیجیے۔ اس سے مجھے معاف رکھو۔ مصافحے کو عید کے دن مخصوص کرنا بدعت ہے۔ اگر بدعت ہے تو جانے دیجیے۔ کیا آپ اسے بدعت نہیں سمجھتے؟ جناب میں تو نہ مصافحے کو بدعت سمجھتا ہوں نہ معانقے کو۔ بدعت دراصل اعتقاد سے تعلق رکھتی ہے۔ عید کے مصافحے یا معانقے کو کوئی سنت یا مستحب یا واجب نہیں سمجھتا۔ عید کا دن مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے۔ کوئی آپس میں دوستوں سے ہاتھ ملا کے خوش ہوتا ہے کوئی گلے لگ کے، اس کو سنت اور بدعت سے کیا تعلق ہے؟ اب کی دفعہ تو عید گاہ میں بہت کثرت سے لوگ تھے اور سب قسم کے لوگ بہت خوش معلوم ہوتے تھے۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ میں تو عید گاہ نہیں گیا، مگر سب قسم کے لوگوں سے آپ کی کیا مراد ہے اور وہ سب کیوں خوش تھے؟

حضرت! ہاں پھر، بڈھے تو اس لیے خوش تھے کہ ان کو توقع نہ تھی کہ ان کی زندگی میں پھر رمضان آئےگا اور اگر آئے گا تو روزے بھی رکھ سکیں گے یا نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کی زندگی میں رمضان آیا اور انہوں نے روزے بھی رکھے۔ فرض سے بھی ادا ہوئے اور قیامت میں بہشت جانے کا سامان ہوا۔ علماء اور زہاد اس لیے خوش تھے کہ انہوں نے روزے رکھے، تراویح پڑھیں، اعتکاف کیا، ان کے مریدوں شاگردوں میں ان کا تقدس زیادہ بڑھا اور اگر اس میں کچھ خدا نے بھی منظور کر لیا تو پھر کیا کہنا ہے، چپڑی اور دو دو، ادھر بندے خوش ادھر خدا خوش۔ جوان اس لیے خوش تھے کہ خدا خدا کرکے فاقوں کے دن گئے، اب رات دن جو چاہو سو کھاؤ اور جو چاہو سو کرو، چین سے رہو۔ ماہ رمضان گذشت و عید آمد۔ لڑکے اور بچے اس لیے خوش تھے کہ مکتب سے چھٹی ملی تھی، عید گاہ سے کھلونے خرید لائے تھے، دودھ سویاں کھا کر مگن تھے۔

حضرت! آپ نے عورتوں کا حال کچھ نہ فرمایا؟ لو جی ان کے بغیر عید کیسی؟ عشوہ و ناز کرنے والوں کی رتھیں پر رتھیں قطار موجود تھیں۔ سینکڑوں آدمی پروانہ وار ان کے گرد تھے۔ اس زمانے کے برگشتہ خیال پردہ شکن لوگوں کا بھی کچھ اثر تھا؟ نہیں خدا نہ کرے کہ کچھ ہوتا۔ جس دن ان ناعاقبت اندیشوں کے خیال خدا نخواستہ پورے ہوں گے، اس دن مسلمانوں کی دین دنیا دونوں میں پوری تضلیل و تذلیل ہو جائےگی۔

بھلا حضرت! ان لوگوں کا کیا حال تھا جو اپنے آپ کو رفارمر اور مسلمانوں کی دین و دنیا کی بھلائی چاہنے والے سمجھتے ہیں؟ یہ لوگ تو اس مجمع میں کم تھے، مگر جو تھے وہ اداس رونی صورت بنائے ہوئے تھے۔ حضرت یہ کیوں؟ ہندوستان کے ہر گوشے میں انجمن اسلامیہ قائم ہوئی ہیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ اسلامیہ مدرسے اور اسکول برابر کھلتے جاتے ہیں، یتیموں کی پرورش و پرداخت کے لیے انجمنیں قائم ہو گئی ہیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ مسلمان قیدی جیل خانے میں مرے تو اس کی مسلمانوں کے طریقے پر تجہیز و تکفین کرنے کو جابجا کمیٹیاں قائم ہیں۔ زنانہ اسکول بنتے جاتے ہیں۔ یتیموں کو صنعت و حرفت سکھانے کا انتظام ہوتا جاتا ہے۔ ایک نہایت عجیب چیز جس کے قائم ہونے کی کبھی توقع نہ تھی وہ بھی قائم ہو گئی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک عالیشان جلسہ ندوۃ العلماء کا کانپور میں ہو چکا ہے اور اب دوسرا لکھنؤ میں ہونے والا ہے۔ پس اس سے زیادہ اور کیا سرسبزی و شادابی مسلمانوں کی ہو سکتی ہے، پھر اب فلاح خواہاں قوم کی اداس اور رونی صورت کیوں بنی ہوئی تھی؟

ارے صاحب اول تو ان تمام کا رخانوں کو قومی بہبود و فلاح کے کارخانے کہنا ہی بے جا ہے۔ یہ تو سوداگری کی دوکانیں ہیں۔ ایک سوداگر مختلف چیزیں خرید کر دوکان بھر تا ہے، اس امید پر دگنے تگنے نفع پر بیچے گا اور فائدہ اٹھائے گا۔ یہ لوگ یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے عوض عقبیٰ میں ثواب یا فائدہ ہوگا۔ کسی کو بہشت میں کوئی محل مل جائےگا۔ من بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ۔ کسی کو حور و غلمان ایک کے بدلے دو اور دو کے بدلے چار ملیں گی اور وہاں سب کاموں کا نفع سوایا ملےگا۔ بھلا یہ قوم کی بھلائی ہے یا پوری سوداگری؟

اس کے سوا ان چھوٹے چھوٹے اور غیر ضروری کاموں سے قوم کی کیا بھلائی ہو سکتی ہے؟ مردے کو کفن دے کر گاڑنے یا ننگا گاڑ دینے سے قوم کی کیا بہتری اور بر تری ہو سکتی ہے۔ یہ باتیں اس وقت کام کی ہیں جب قوم اور تمام ضرورتوں سے نچنت ہو تو مردوں کی بھی فکر اچھی معلوم ہوتی ہے، ورنہ خود مردے مردوں کے ساتھ کیا کریں گے۔

ہم نے مانا کہ ان چھوٹے چھوٹے مدرسوں سے کچھ حرف شناسی یا شد بد آ گئی، کیا اس قدر تعلیم سے قوم، قوم ہو سکتی ہے یا کچھ عزت پید ا کر سکتی ہے؟

یہ بھی تسلیم کرو کہ مذہبی مدرسوں میں پڑھ کر بہت بڑے عالم اور فقیہ ہو جاویں گے اور جن کو وہ لوگ اہل بدع اور اہواء سمجھتے ہیں ان کو خوب ہرا سکیں گے، مگر اس سے کیا ہوگا؟ بڑا حملہ اس وقت علوم و فلسفہء جدیدہ کا اسلام پر کیا، تمام مذاہب پر ہے۔ ان مدرسوں کے پڑھنے والے اسی پرانی لکیر کو پیٹے جاتے ہیں جس کا نشان بھی اب دنیا میں نہیں رہا۔ ان پڑھے ہوئے دستار فضیلت بندھے ہوؤں کو کچھ بھی مادہ ان حملوں سے مذہب کی حفاظت کا ہے؟ پھر دستار فضیلت سر کا ایک بوجھ ہے، قوم کو تو ان سے کسی فائدے کی توقع نہیں ہو سکتی۔ پس قوم کے ان بھلائی چاہنے والوں یا رفارمروں کی آنکھ میں یہ سب ہیچ ہے۔ ان مدرسوں سے قومی فلاح کی ان کو توقع نہیں ہے۔ پھر وہ اداس اور رونی صورت بنائے ہوئے نہ ہوں تو اور کیا ہوں۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse