عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے
by آرزو لکھنوی

عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے
پیام خامشی اور وہ بھی دو دو نشر گاہوں سے

وبال جاں ہے ایسی زندگی جس میں تلاطم ہو
مٹا لوں حوصلے پھر توبہ کر لوں گا گناہوں سے

فضا محدود کب ہے اے دل وحشی فلک کیسا
نلاہٹ ہے نظر کی دیکھتے ہیں جو نگاہوں سے

حقیقت میں نگاہوں سے کوئی منزل نہیں بچتی
گزرتے دیکھے ہیں گوشہ نشیں تک شاہراہوں سے

تہی دستان قسمت کو نہ لینا تھا نہ دینا تھا
حساب زندگی کیا ہے یہ پوچھو بادشاہوں سے

ہمیں تو جلتے دل کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے
ہٹا دو قمقمے بجلی کے نا ہموار راہوں سے

مرے نالوں کے سب شاکی کوئی ان کو نہیں کہتا
کھرچتے رہتے ہیں جو زخم دل خونی نگاہوں سے

پلا دو زہر غم دل کو نہ چھوڑے گر ہوس کاری
گنہ وہ ایک اچھا جو بچا لے سو گناہوں سے

ہمیں کچھ آرزوؔ پھیر ان کی باتوں کا سمجھتے ہیں
جو حق پوشی میں سچ کو جھوٹ کرتے ہیں گواہوں سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse