عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
by جلیل مانکپوری

عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
کچھ حقیقت نہیں اتنی ہے حقیقت میری

دیکھتا میں اسے کیوں کر کہ نقاب اٹھتے ہی
بن کے دیوار کھڑی ہو گئی حیرت میری

روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو
میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری

سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے
چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری

آئینے سے انہیں کچھ انس نہیں بات یہ ہے
چاہتے ہیں کوئی دیکھا کرے صورت میری

میں یہ سمجھوں کوئی معشوق مرے ہاتھ آیا
میرے قابو میں جو آ جائے طبیعت میری

بوئے گیسو نے شگوفہ یہ نیا چھوڑا ہے
نکہت گل سے الجھتی ہے طبیعت میری

ان سے اظہار محبت جو کوئی کرتا ہے
دور سے اس کو دکھا دیتے ہیں تربت میری

جاتے جاتے وہ یہی کر گئے تاکید جلیلؔ
دل میں رکھیے گا حفاظت سے محبت میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse