عکس پر یوں آنکھ ڈالی جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عکس پر یوں آنکھ ڈالی جائے گی
by ریاض خیرآبادی

عکس پر یوں آنکھ ڈالی جائے گی
سامنے کی چوٹ خالی جائے گی

یہ قیامت بھی نکالی جائے گی
اس گلی سے کھا کے گالی جائے گی

کعبے میں بوتل کھلے موقع کہاں
زمزمی سے آج ڈھالی جائے گی

گل تو کیا ہیں تا قفس اے باد تند
پتہ پتہ ڈالی ڈالی جائے گی

بزم ساقی میں اگر لغزش ہوئی
ہاتھ سے مے کی پیالی جائے گی

گدگدانے کو کف پا دل کے ساتھ
آرزوئے پائمالی جائے گی

وا در توبہ ہے تو جلدی ہے کیا
بات بگڑی کچھ بنا لی جائے گی

مردہ کوئی آرزو اس دل میں ہے
کہہ گئے وہ جان ڈالی جائے گی

میکدے ہم گھر سے جائیں گے ریاضؔ
ایک بوتل ساتھ خالی جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse