عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے
by اشرف علی فغاں

عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے
ایک میں آپ ہوں یا گوشۂ تنہائی ہے

دل تو رکتا ہے اگر بند قبا باز نہ ہو
چاک کرتا ہوں گریباں کو تو رسوائی ہے

طاقت ضبط کہاں اب تو جگر جلتا ہے
آہ سینہ سے نکل لب پہ مرے آئی ہے

میں تو وہ ہوں کہ مرے لاکھ خریدار ہیں اب
لیک اس دل سے دھڑکتا ہوں کہ سودائی ہے

دل بیتاب فغاںؔ امت ایوب نہیں
نہ اسے صبر ہے ہرگز نہ شکیبائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse