عورتوں کا بناؤ سنگھار کیوں ضروری ہے؟

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عورتوں کا بناؤ سنگھار کیوں ضروری ہے؟
by وحید الدین سلیم

عورتیں بچپن سے مرتے دم تک اپنی زینت وآرائش اور بناؤ سنگھار میں مشغول رہتی ہیں اور ان کی ساری کوشش اسی کام میں صرف ہوتی ہے کہ اپنے تئیں حسین اور جمیل بنائیں اور ان کا حسن وجمال لوگوں کی نظر میں دلکش اور دل فریب معلوم ہو۔ کوئی مرد عورتوں کے اس مشغلے پر اعتراض نہیں کرتا کیونکہ ان کو ایسے کاموں کے کرنے کی آزادی دی گئی ہے جوان کی خوشی اور رضامندی کا باعث ہوں۔ مگر مردوں کا اعتراض نہ کرنا اور ان کے بناؤ سنگھار کے مشغلے سے بے پروائی کا برتاؤ کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ ہر مرد پر لازم ہے کہ جب وہ کسی عورت کو بناؤ سنگھار اور زینت وآرائش میں مشغول دیکھے تو نہایت خوشی اور مسرت کا اظہار کرے اور اس بات کی کوشش کرے کہ وہ عورت اپنے اس مشغلے کو ہمیشہ جاری رکھے۔

کیوں کہ عورتوں کا بناؤ سنگھار میں مشغول ہونا اور اپنے حسن وجمال کو دل فریب اور دلکش بنانے کی کوشش کرنا ان کی تندرستی اور صحت کا بہت بڑا سبب ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عورتوں کی صحت وتندرستی نوع انسان کی بقاکے لیے نہایت ضروری ہے۔ کوئی عورت اپنے تئیں حسین و جمیل نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ کامل طور پر تندرست نہ ہو۔ مثلاً اگر کسی عورت کا جسم حد سے زیادہ فربہ ہو تو وہ حسین اور جمیل نہیں ہو سکتی اور جب تک کہ اس کا جسم دبلانہ ہو جائے وہ نہایت بے چین اور پریشان رہتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت حد سے زیادہ دبلی اور ناتواں ہو تو وہ اپنے حسن وجمال کو نمایاں نہیں کر سکتی، جب تک کہ اس کے جسم میں ترقی نہ ہو اور وہ اعتدال پر نہ آ جائے۔

بلاشبہ آج کل کی عورتیں حسن و جمال کا مدار جسم کے دبلے ہونے پر خیال کرتی ہیں مگر یہ وہم دیر پا نہیں رہ سکتا۔ کچھ عرصے کے بعد خود بخود یہ وہم ان کے دلوں سے نکل جائےگا اور وہ یقین کرنے لگیں گی کہ حسن وجمال اس جسم میں نہیں رہ سکتا جو ہڈیوں کی مالا ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے جسموں کو معتدل اور تندرست رکھنے کی کوشش کریں گی۔ عورت اپنے چہرے کے رنگ پر ناز کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ جوانی اور تندرستی کا خون اس کے رخساروں میں جھلکے اور وہ گلابی دکھائی دیں اور ان کا رنگ زرد نہ ہو مگر عورت کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ کامل طور پر تندرست نہ ہو۔

عورتوں کا اپنے خوبصورت رنگ پر فریفتہ ہونا اور ان کا اس خیال میں رات دن محو رہنا نہایت مفید ہے۔ جس قوم کی عورتیں صحیح اور تندرست اور طاقتور ہیں اور ان کے جسم معتدل ہیں، اس قوم کے بچے نہایت تندرست اور ذہین اور طاقتور پیدا ہوتے ہیں۔ ہزار یگانے عورت کو نصیحت کریں، ہزار بے گانے اس کو تندرستی کا لحاظ رکھنے کی ہدایت کریں مگر کوئی نصیحت اور کوئی ہدایت اس کے حق میں اس قدر مفید نہیں ہو سکتی جس قدر کہ اس کا بناؤ سنگھار میں رہنا اور اپنے تئیں حسین و جمیل بنانے کا شائق ہونا اس کے حق میں مفید ہے۔

عورتیں جو کھانے کھاتی ہیں، اس کی تاثیروں کو اپنے چہروں کے آئینوں میں دیکھتی رہتی ہیں۔ بعض ثقیل اور دیر ہضم کھانوں کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کے چہروں کا رنگ ملگجا اور بےرونق ہو جاتا ہے۔ بعض کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کے رنگ کی سرخی حد سے زیادہ بڑھ جاتی اور بدنما معلوم ہوتی ہے۔ ان تجربوں سے عورتیں جان جاتی ہیں کہ کون سے کھانے ایسے ہیں جو ان کی تندرستی قائم رکھنے اور رنگ کو خوشنما رکھنے میں مفید ہیں اور کون سی غذائیں ایسی ہیں جن کے کھانے سے ان کے حسن وجمال کو نقصان پہنچتا ہے۔ مجبوراً وہ دوسری قسم کے کھانوں سے پرہیز کرتی ہیں اور حسین و جمیل رہنے کی خواہش ان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی تندرستی کو قائم رکھیں۔

بعض عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کی کمر پتلی معلوم ہو اور اس غرض کے لیے وہ کمر پر پیٹی باندھ لیتی ہیں۔ مگر جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاضمے اور جگر کے فعل میں فتور آ چلا ہے اور ایک سرخ داغ ان کی ناک کے بانسے پر پیدا ہو گیا ہے جو نہایت بدنما معلوم ہوتا ہے اور ان کے حسن و جمال کو داغ لگاتا ہے تو مجبور ہوکر وہ کمر کی پیٹی کو ڈھیلا کر دیتی ہیں اور معدہ اور جگر کوان کے قدرتی فرائض کے انجام دینے سے نہیں روکتیں۔

بعض عورتیں شراب یا کوئی اور نشے کی چیز استعمال کرتی ہیں یا تمباکو پینے لگتی ہیں مگر جب ان کو یہ بات آنکھوں سے نظر آتی ہے کہ نشہ کی چیزوں کا استعمال کرنا اور تمباکو دھواں پینا ان کے چہروں کا رنگ بگاڑ رہا ہے اور ان کے حسن و جمال میں تیرگی اور بے رونقی آتی جاتی ہے تو وہ ان مضر صحت چیزوں کو چھوڑ دیتی ہیں اور ان کے استعمال سے توبہ کرتی ہیں۔ تمباکو پینے سے چہرہ کا رنگ زرد ہو جاتا ہے۔ منہ کی شکل بگڑ جاتی ہے۔ آنکھوں کا نور غائب ہونے لگتا ہے۔ بالائی ہونٹ پر جو بال اگ آتے ہیں، وہ بڑھنے لگتے ہیں۔ یہ ایسے نمایاں اثر ہیں جن کو عورت آئینہ میں آسانی سے دیکھ سکتی ہے۔ جب کوئی نوجوان عورت تمباکو پینے یا کسی نشے کی چیز کے استعمال کرنے میں مبتلا ہو تو وہ کسی ناصح کی نصیحت سے اس عادت سے باز نہیں رہےگی۔ اس کے باز رکھنے کے لیے صرف یہ امر کافی ہے کہ اس کے سامنے آئینہ رکھ دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ تم ذرا اپنے چہرہ کو دیکھو اور اس کی بے رونقی کے سبب پر غور کرو۔

اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ عورتوں کا بناؤ سنگھار اور زینت وآرائش کا جو شوق ہے، وہ ان کے لیے ان کی بہت سی بیماریوں کا قدرتی علاج ہے اور کسی عورت کو اس شوق کے پورا کرنے سے باز رکھنا نامناسب اور ان کے حق میں نہایت مضر ہے۔ جب تم دیکھو کہ کوئی نوجوان عورت تمباکو پیتی ہے یا کسی نشے کی چیز استعمال کرتی ہے یا راتوں کو جاگتی ہے یا ثقیل اور دیر ہضم کھانے کھاتی ہے تو اس کو ہرگز لعنت ملامت نہ کرو بلکہ نہایت نرم اور شیریں لہجے میں اس سے کہو، میری عزیزہ! یہ کیا بات ہے کہ تمہاری ناک کا بانسا نہایت سرخ رہتا ہے؟ کیا سبب ہے کہ تمہاری آنکھوں میں وہ آب و تاب نہیں رہی جو پہلے تھی؟ مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ تمہارے چہرہ کارنگ روز بروز ملگجا اور بےرونق ہوتا جاتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتیں کہ تمہارا جسم دن بدن دبلا اور نحیف ہو رہا ہے؟

یہ دردناک سوالات اور یہ افسوسناک ہمدردانہ جملے عورت پر فوراً اپنا اثر کریں گے اور وہ اپنے مضر صحت کاموں سے باز آ جائےگی اور اپنے تئیں تندرست اور حسین و جمیل بنانے کی کوشش کرےگی۔ برخلاف اس کے لعنت ملامت کا اثر اس پر الٹا ہوگا اور اس کی ضد بڑھ جائےگی اور اس طرح وہ رفتہ رفتہ اپنی تندرستی اور حسن و جمال کی دشمن ہو جائےگی اور بالآخر اپنے تئیں ہلاک کر ڈالےگی۔

بناؤسنگھار اور زینت و آرائش کاشوق جو عورتوں میں پایا جاتا ہے، وہ ایک قدرتی شوق ہے اور قدرت نے اس شوق میں ایک بڑی حکمت پوشیدہ رکھی ہے، جس کا ہم نے ابھی بیان کیا۔ پس جو شخص اس شوق کے رستے میں حائل ہوتا ہے وہ گویا قدرت سے ڈرتا ہے اور اول عورتوں کی تندرستی کا، پھر تمام قوم کی زندگی اور بقا کا دشمن ہے۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse