عمر کاٹی بتوں کی آڑوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عمر کاٹی بتوں کی آڑوں میں
by مضطر خیرآبادی

عمر کاٹی بتوں کی آڑوں میں
بن کے پتھر رہا پہاڑوں میں

وہ لڑائی میں بول اٹھے مجھ سے
بات اچھی بنی بگاڑوں میں

درد سر کے علاج کو وحشت
کھینچ کر لے چلی پہاڑوں میں

مستیاں اور بہار کا موسم
مے کی لذت گلابی جاڑوں میں

دختر رز کی شرم تو دیکھو
چھپ گئی جا کے خم کی آڑوں میں

تو نے پی ہی نہیں ہے اے زاہد
مے کی گرمی نہ پوچھ جاڑوں میں

تیرے گیسو بھی ہو گئے شامل
میری تقدیر کے بگاڑوں میں

مرگ دشمن پہ موت روتی ہے
یہ اثر ہے تری پچھاڑوں میں

اٹھتے جوبن پہ کھل پڑے گیسو
آ کے جوگی بسے پہاڑوں میں

وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں

عشق میں جان پر بنی مضطرؔ
زندگی کٹ گئی بگاڑوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse