عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں
by اختر شیرانی

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں
ہائے وہ راتیں کہ جو خواب پریشاں ہو گئیں

میں فدا اس چاند سے چہرے پہ جس کے نور سے
میرے خوابوں کی فضائیں یوسفستاں ہو گئیں

عمر بھر کم بخت کو پھر نیند آ سکتی نہیں
جس کی آنکھوں پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں

دل کے پردوں میں تھیں جو جو حسرتیں پردہ نشیں
آج وہ آنکھوں میں آنسو بن کے عریاں ہو گئیں

کچھ تجھے بھی ہے خبر او سونے والے ناز سے
میری راتیں لٹ گئیں نیندیں پریشاں ہو گئیں

ہائے وہ مایوسیوں میں میری امیدوں کا رنگ
جو ستاروں کی طرح اٹھ اٹھ کے پنہاں ہو گئیں

بس کرو او میری رونے والی آنکھوں بس کرو
اب تو اپنے ظلم پر وہ بھی پشیماں ہو گئیں

آہ وہ دن جو نہ آئے پھر گزر جانے کے بعد
ہائے وہ راتیں کہ جو خواب پریشاں ہو گئیں

گلشن دل میں کہاں اخترؔ وہ رنگ نو بہار
آرزوئیں چند کلیاں تھیں پریشاں ہو گئیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse