علم کو پرہیزگاری چاہئے
Appearance
علم کو پرہیزگاری چاہئے
گلشنوں کو آبیاری چاہئے
سب کو خواہش ہے حکومت کی مگر
ہمتوں میں پائیداری چاہئے
ایک بو کر کاٹتے ہیں جب ہزار
بے زروں کی کشتکاری چاہئے
گرد اونچی ہو کے بنتی ہے غبار
خاکیوں کو خاکساری چاہئے
تخم بوتے ہی نہیں ملتے ثمر
ہر جگہ امیدواری چاہئے
حکمرانوں کے لئے ہے لازمی
یوں تو سب کو رازداری چاہئے
کہہ رہے ہیں تجربے یورپ کے یہ
عورتوں کو پردہ داری چاہئے
عیش کی جا خوش دلی درکار ہے
غم کدے میں سوگواری چاہئے
ختم پر ہر رنج کے جب عیش ہے
عاصیوں کو اشک باری چاہئے
حاکموں کی مہربانی کے لئے
محنت و خدمت گزاری چاہئے
دین و دنیا کی مسرت کے لئے
مرد و زن میں خوش گواری چاہئے
عفو کو حجت سے جب سیفیؔ ہے بغض
خاطیوں کو شرمساری چاہئے
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |