علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
by مضطر خیرآبادی

علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا

ابھی مرتے ہیں ہم جینے کا طعنہ پھر نہ دینا تم
یہ طعنہ ان کو دینا جن سے ایسا ہو نہیں سکتا

تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

دم آخر مری بالیں پہ مجمع ہے حسینوں کا
فرشتہ موت کا پھر آئے پردا ہو نہیں سکتا

نہ برتو ان سے اپنائیت کے تم برتاؤ اے مضطرؔ
پرایا مال ان باتوں سے اپنا ہو نہیں سکتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse