عقل کی سطح سے کچھ اور ابھر جانا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عقل کی سطح سے کچھ اور ابھر جانا تھا
by مجاز لکھنوی

عقل کی سطح سے کچھ اور ابھر جانا تھا
عشق کو منزل پستی سے گزر جانا تھا

جلوے تھے حلقۂ سر دام نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابند نظر جانا تھا

حسن کا غم بھی حسیں فکر حسیں درد حسیں
ان کو ہر رنگ میں ہر طور سنور جانا تھا

حسن نے شوق کے ہنگامے تو دیکھے تھے بہت
عشق کے دعوئے تقدیس سے ڈر جانا تھا

یہ تو کیا کہئے چلا تھا میں کہاں سے ہم دم
مجھ کو یہ بھی نہ تھا معلوم کدھر جانا تھا

حسن اور عشق کو دے طعنۂ بیداد مجازؔ
تم کو تو صرف اسی بات پر مر جانا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse