عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے
by بیتاب عظیم آبادی

عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے
کچھ حقیقت بھی ہے انساں کی کہاں تک پہنچے

عشق کے شعلے بھڑک کر رگ جاں تک پہنچے
آگ سی آگ ہے یہ آگ جہاں تک پہنچے

لڑ گئی ان سے نظر کھچ گئے ابرو ان کے
معرکے عشق کے اب تیر و کماں تک پہنچے

دل سے باہر ہو ترا راز گوارا ہے کسے
یہ کوئی بات نہیں ہے کہ زباں تک پہنچے

مار لے وہ نگۂ ناز تو رتبہ ہو بلند
سر ہو اونچا مرا گر نوک سناں تک پہنچے

کوئی دیوانگئ عشق کا قصہ چھیڑے
سلسلہ اس کا خدا جانے کہاں تک پہنچے

سرخیٔ خار بیاباں یہ پتہ دیتی ہے
کہ ادھر سے ترے دیوانے یہاں تک پہنچے

رند پر کیف بہ یک گردش چشم ساقی
غایت دائرۂ کون و مکاں تک پہنچے

رخ سے پردہ کو ہٹا حسن یقیں تک پہنچا
آخر انسان ہوں یوں عقل کہاں تک پہنچے

راہ میں اور بھی دیوانوں سے ملتے جلتے
پوچھتے پوچھتے ہم ان کے مکاں تک پہنچے

شربت دید نہ ہو تیغ کا پانی ہی سہی
کوئی ٹھنڈک تو مرے قلب تپاں تک پہنچے

لے گئے عشق کی بازی پہ صفائی بیتابؔ
جان پر کھیل گئے جان جہاں تک پہنچے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse