عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
by جلیل مانکپوری

عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
یہ سن غضب کا ہے یہ جوانی بلا کی ہے

سچ پوچھیے تو نالۂ بلبل ہے بے خطا
پھولوں میں ساری آگ لگائی صبا کی ہے

دل ہے عجیب گل چمن روزگار میں
رنگت تو پھول کی ہے مگر بو وفا کی ہے

خلوت میں کیوں یہ ساتھ ہیں سب کو الگ کرو
شوخی کا ہے نہ کام نہ حاجت حیا کی ہے

وہ ہاتھ ان کے چومتی ہے میں ہوں پائمال
یہ ہیں مرے نصیب وہ قسمت حنا کی ہے

انجام کیا ہو داغ محبت کا دیکھیے
سینے میں ابتدا سے جلن انتہا کی ہے

موسم یہی تو پینے پلانے کا ہے جلیل
مے خوار باغ باغ ہیں آمد گھٹا کی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse