عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے
by بیاں احسن اللہ خان

عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے
قہر ہے سحر ہے جادو ہے بلا ہے کیا ہے

یار سے میری جو کرتے ہیں سفارش اغیار
مکر ہے عذر ہے قابو ہے دغا ہے کیا ہے

تجھ کو کس نام سے اے فخر مرے یاد کروں
باپ ہے پیر ہے مرشد ہے خدا ہے کیا ہے

تم جو بے وجہ سناتے ہو مری جان مجھے
خوب ہے نیک ہے بہتر ہے بھلا ہے کیا ہے

روبرو اس کے کبھو بات نہ سدھری ہم سے
حلم ہے چین ہے دہشت ہے حیا ہے کیا ہے

نظم کو سن کے مری ہنس کے یہ بولا وہ شوخ
مدح ہے شکر ہے شکوہ ہے گلہ ہے کیا ہے

یہ جو اس شوخ پہ کرتا ہے بیاںؔ جان نثار
خبط ہے عشق ہے سودا ہے وفا ہے کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse