عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
by اصغر گونڈوی

عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دل شورش ادا کی ہے

مستانہ کر رہا ہوں رہ عاشقی کو طے
کچھ ابتدا کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے

کھلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے
جنبش رگ بہار میں موج فنا کی ہے

ہم خستگان راہ کو راحت کہاں نصیب
آواز کان میں ابھی بانگ درا کی ہے

ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوش آرزو
اب تو یہی زبان مرے مدعا کی ہے

لطف نہان یار کا مشکل ہے امتیاز
رنگت چڑھی ہوئی ستم برملا کی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse