عشق ہے یار کا خدا حافظ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق ہے یار کا خدا حافظ
by سخی لکھنوی

عشق ہے یار کا خدا حافظ
امر دشوار کا خدا حافظ

پیچ مجھ پر پڑے جو پڑنا ہو
زلف خم دار کا خدا حافظ

سر جو ٹکراتا ہوں تو کہتے ہیں
میری دیوار کا خدا حافظ

سرفروشوں کی چشم بد نہ پڑے
ان کی تلوار کا خدا حافظ

دفن ہم ہو چکے تو کہتے ہیں
اس گنہ گار کا خدا حافظ

دشت چھوٹا تو آبلوں نے کہا
یاں کے ہر خار کا خدا حافظ

بات کرنے میں ہونٹ لڑتے ہیں
ایسے تکرار کا خدا حافظ

بلبلیں قید باغباں غافل
گل زردار کا خدا حافظ

گر سخیؔ کو ہے عشق کا آزار
ایسے بیمار کا خدا حافظ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse