عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
by خواجہ میر درد

عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے

آہ کب تک میں بکوں تیری بلا سنتی ہے
باتیں لوگوں کی جو کچھ دل مجھے سنواتا ہے

ہم نشیں پوچھ نہ اس شوخ کی خوبی مجھ سے
کیا کہوں تجھ سے غرض جی کو مرے بھاتا ہے

بات کچھ دل کی ہمارے تو نہ سلجھی ہم سے
آپی خوش ہووے ہے پھر آپ ہی گھبراتا ہے

جی کڑا کر کے ترے کوچے سے جب جاتا ہوں
دل دشمن یہ مجھے گھیر کے پھر لاتا ہے

راہ پینڈے کبھو اس شوخ کے تئیں ہم سے بھی
دید وا دید تو ہوتی ہے جو مل جاتا ہے

دردؔ کی قدر مرے یار سمجھنا واللہ
ایسا آزاد ترے دام میں یوں آتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse