عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
by بیدم وارثی

عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
پھر کوئی روزن دیوار سے جھانکا دیکھو

ان کے ملنے کی تمنا میں مٹا جاتا ہوں
نئی دنیا ہے مرے شوق کی دنیا دیکھو

طور پر ہی نہیں نظارۂ جاناں موقوف
دیکھنا ہو تو وہ موجود ہے ہر جا دیکھو

اثر نالۂ عاشق نہیں دیکھا تم نے
تھام لو دل کو سنبھل بیٹھو اب اچھا دیکھو

طور مجنوں کی نگاہوں کے بتاتے ہیں ہمیں
اسی لیلیٰ میں ہے اک دوسری لیلیٰ دیکھو

پرتو مہر سے معمور ہے ذرہ ذرہ
لہریں لیتا ہے ہر اک قطرہ میں دریا دیکھو

دور ہو جائیں جو آنکھوں سے حجابات دوئی
پھر تو دل ہی میں دو عالم کا تماشا دیکھو

سب میں ڈھونڈا انہیں اور کی تو نہ کی دل میں تلاش
نظر شوق کہاں کھائی ہے دھوکا دیکھو

نہیں تھمتے نہیں تھمتے مرے آنسو بیدمؔ
راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse