عشق کی چوسر کس نے کھیلی یہ تو کھیل ہمارے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کی چوسر کس نے کھیلی یہ تو کھیل ہمارے ہیں
by مبارک عظیم آبادی

عشق کی چوسر کس نے کھیلی یہ تو کھیل ہمارے ہیں
دل کی بازی مات ہوئی تو جان کی بازی ہارے ہیں

کیسے کیسے لخت جگر ہیں کیا کیا دل کے پارے ہیں
ایسے لعل کہاں دنیا میں جیسے لعل ہمارے ہیں

اس کو مارا اس کو مارا یہ بسمل وہ ٹوٹ گیا
نوک پلک والوں سے ڈریے قاتل ان کے اشارے ہیں

چھلنی چھلنی دل بھی جگر بھی روزن روزن سینہ بھی
ایک نگاہ ناز نے تیری تیر ہزاروں مارے ہیں

پھونک رہا ہے سوز نہانی کون اس آگ پہ ڈالے پانی
دل کی لگی نے آگ لگا دی داغ نہیں انگارے ہیں

لالہ رخوں میں عمر گزاری دیکھی ان کی فصل بہار
آج بھی گل سے گالوں والے مجھ کو مبارکؔ پیارے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse