عشق کی داستان ہے پیارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کی داستان ہے پیارے
by جگر مراد آبادی

عشق کی داستان ہے پیارے
اپنی اپنی زبان ہے پیارے

کل تک اے درد یہ تپاک نہ تھا
آج کیوں مہربان ہے پیارے

سایۂ عشق سے خدا ہی بچائے
ایک ہی قہر مان ہے پیارے

اس کو کیا کیجئے جو لب نہ کھلیں
یوں تو منہ میں زبان ہے پیارے

یہ تغافل بھی ہے نگہ آمیز
اس میں بھی ایک شان ہے پیارے

جس نے اے دل دیا ہے اپنا غم
اس سے تو بد گمان ہے پیارے

دل کا عالم نگاہ کیا جانے
یہ تو صرف اک زبان ہے پیارے

میرے اشکوں میں اہتمام نہ دیکھ
عاشقی کی زبان ہے پیارے

ہم زمانے سے انتقام تو لیں
اک حسیں درمیان ہے پیارے

عشق کی ایک ایک نادانی
علم و حکمت کی جان ہے پیارے

تو نہیں میں ہوں میں نہیں تو ہے
اب کچھ ایسا گمان ہے پیارے

کہنے سننے میں جو نہیں آتی
وہ بھی اک داستان ہے پیارے

رکھ قدم پھونک پھونک کر ناداں
ذرے ذرے میں جان ہے پیارے

کس کو دیکھے سے دل کو چوٹ لگی
کیوں یہ اتری کمان ہے پیارے

تیری برہم خرامیوں کی قسم
دل بہت سخت جان ہے پیارے

ہاں ترے عہد میں جگرؔ کے سوا
ہر کوئی شادمان ہے پیارے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse