عشق کی خوبی کہوں کیا آشنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کی خوبی کہوں کیا آشنا
by دیا شنکر نسیم

عشق کی خوبی کہوں کیا آشنا
جان کا دشمن ہے دل کا آشنا

بحر الفت سے کنارہ خوب ہے
کھا گیا غوطہ تو ڈوبا آشنا

روز بد سے ڈر کہ ہو جاتے ہیں پھر
دوست دشمن آشنا ناآشنا

دہر میں کم یاب کیا نایاب ہیں
کیمیا درویش سچا آشنا

شاغلان عشق کا یہ درد ہے
یا محب یا مہربان یا آشنا

پاک الفت ہو تو پھر کیا اے رقیب
آشنا ہے آشنا کا آشنا

دو سمجھنا صاف ہے بے وحدتی
ایک ہی بیگانہ ہو یا آشنا

ہم تو دل سے نیک سمجھے ہیں تمہیں
تم برا کہتے ہو اچھا آشنا

دل جلے کیا کیا نہیں کہتے تمہیں
بے مروت بے وفا ناآشنا

آؤ جی دل کھول کر مل لیجئے
زندگی کا کیا بھروسا آشنا

قلزم عشق ایک طوفاں خیز ہے
ڈوبے اس دریا میں صدہا آشنا

کہئے تو کہہ دوں ہزاروں میں یہ بات
ہے نسیمؔ اک گل بدن کا آشنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse