عشق کی آگ میں اب شمع سا جل جاؤں گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کی آگ میں اب شمع سا جل جاؤں گا
by عشق اورنگ آبادی

عشق کی آگ میں اب شمع سا جل جاؤں گا
تجھ لگن بیچ قدم گاڑ نہ ٹل جاؤں گا

گر دم تیغ سے سو بار کٹے گی گردن
اپنی ثابت قدمی سیتے سنبھل جاؤں گا

میں وہ جاں باز و حوالہ ہوں پتنگے کی طرح
شمع رو تیرے اپر جان سے جل جاؤں گا

شجر موم سا ہوں عالم موہوم کے بیچ
مہرباں گرم نگاہی سے پگھل جاؤں گا

خاک اڑاتا ہوا ہستی کے تئیں دے برباد
سر بہ صحرا ہوں بگولے سا نکل جاؤں گا

تیرے کوچے کی طرف عزم کیا ہوں جاناں
آخرش یک دو قدم سر سے بھی چل جاؤں گا

چشم بد مست کو گردش میں جو لاوے ساقی
ابھی دو جام میں سرشار ہو چل جاؤں گا

عشقؔ ہے بال سے باریک صراط محشر
یا علیؔ کہہ کے تبھی اس پہ سنبھل جاؤں گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse