عشق کو کائنات کا مقصد و مدعا سمجھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کو کائنات کا مقصد و مدعا سمجھ
by سراج الدین ظفر

عشق کو کائنات کا مقصد و مدعا سمجھ
پھر ترا ظرف ہے اسے درد سمجھ دوا سمجھ

راہ وفا میں مجھ کو حکم یہ ہے کہ اپنے آپ کو
اٹھ تو غبار کر خیال بیٹھ تو نقش پا سمجھ

میں جو حریم ناز میں شمع صفت خموش ہوں
اس کو بھی اے نگاہ لطف کوشش التجا سمجھ

اے دل بیقرار دوست دور ہے منزل وفا
جا تجھے شوق دے خدا مجھ کو شکستہ پا سمجھ

تیرا چراغ زندگی آخری سانس لے جہاں
عشق کے اس مقام کو دائرۂ بقا سمجھ

دنیا سے اہل عشق کو کوئی نہیں ہے واسطہ
سب سے ہوں میں الگ تھلگ سب سے مجھے جدا سمجھ

میرے نیاز پر ہے تنگ دیر و حرم کی زندگی
اب اسے ابتری سمجھ یا اسے ارتقا سمجھ

ہستیٔ دوست سے الگ تیرا وجود کچھ نہیں
اپنی طرف بھی اب نہ دیکھ خود کو بھی ماسوا سمجھ

ارض و سما برائے دوست کون و مکاں سرائے دوست
جو بھی ہے ماسوائے دوست حرص سمجھ ہوا سمجھ

عشق میں اور حسن میں کوئی نہیں ہے امتیاز
یہ بھی مری ادا سمجھ وہ بھی مری ادا سمجھ

جن میں نہ جوش ہو ظفرؔ وہ مرے زمزمے نہیں
دل سے جو کھیلتی اٹھے اس کو مری نوا سمجھ

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse