عشق کو بے نقاب ہونا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کو بے نقاب ہونا تھا
by جگر مراد آبادی

عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا

مست جام شراب ہونا تھا
بے خود اضطراب ہونا تھا

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے
ہو چکا جو عتاب ہونا تھا

کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا

مست جام شراب خاک ہوتے
غرق جام شراب ہونا تھا

دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ
اس کو سادہ کتاب ہونا تھا

ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا
آخرش کامیاب ہونا تھا

ہائے وہ لمحۂ سکوں کہ جسے
محشر اضطراب ہونا تھا

نگۂ یار خود تڑپ اٹھتی
شرط اول خراب ہونا تھا

کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں
کرم بے حساب ہونا تھا

کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی
موج صد اضطراب ہونا تھا

ہو چکا روز اولیں ہی جگرؔ
جس کو جتنا خراب ہونا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse