عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
by سخی لکھنوی

عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
سیکڑوں میں سے اک چنا ہے شوخ

یہ بھی شوخی نئی نکالی ہے
آج دشمن سے کچھ خفا ہے شوخ

اپنی آنکھوں میں رات دن رکھ کر
میں نے خود اس کو کر دیا ہے شوخ

اشک خوں میرے دیکھ کر بولے
اس سے تو کچھ مری حنا ہے شوخ

آنکھ سے گر کے گود میں مچلا
طفل اشک ایسا ہو گیا ہے شوخ

بوسہ ہر وقت رخ کا لیتا ہے
کس قدر گیسوئے دوتا ہے شوخ

چھیڑتی ہے تمہارے زلفوں کو
کس بلا کی مگر صبا ہے شوخ

بر میں آئینہ کے لیا نہ قرار
جان من عکس بھی ترا ہے شوخ

پھر گئی دور سے دکھا کے جھلک
ہجر میں اے سخیؔ قضا ہے شوخ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse