عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا
by نظیر اکبر آبادی

عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا
ہے جہاں اس کا عمل وہ شہر بھی ہے پٹ پڑا

عاشقوں کے قتل کو کیا تیز ہے ابرو کی تیغ
ٹک ادھر جنبش ہوئی اور سر ادھر سے کٹ پڑا

اشک کی نوک مژہ پر شیشہ بازی دیکھیے
کیا کلائیں کھیلتا ہے بانس پر یہ نٹ پڑا

شاید اس غنچہ دہن کو ہنستے دیکھا باغ میں
اب تلک غنچہ بلائیں لیتا ہے چٹ چٹ پڑا

دیکھ کر اس کے سراپا کو یہ کہتی ہے پری
سر سے لے کر پاؤں تک یاں حسن آ کر پھٹ پڑا

کیا تماشا ہے کہ وہ چنچل ہٹیلا چلبلا
اور سے تو ہٹ گیا پر میرے دل پر ہٹ پڑا

کیا ہوا گو مر گیا فرہاد لیکن دوستو
بے ستوں پر ہو رہا ہے آج تک کھٹ کھٹ پڑا

ہجر کی شب میں جو کھینچی آن کر نالے نے تیغ
کی پٹے بازی ولے تاثیر سے ہٹ ہٹ پڑا

دل بڑھا کر اس میں کھینچا آہ نے پھر نیمچہ
اے نظیرؔ آخر وہ اس کا نیمچہ بھی پٹ پڑا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse