عشق کا اختتام کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق کا اختتام کرتے ہیں
by وزیر علی صبا لکھنؤی

عشق کا اختتام کرتے ہیں
دل کا قصہ تمام کرتے ہیں

قہر ہے قتل عام کرتے ہیں
ترک ترکی تمام کرتے ہیں

طاق ابرو سے ان کے در گزرے
ہم یہیں سے سلام کرتے ہیں

شیخ اس سے پناہ مانگتے ہیں
برہمن رام رام کرتے ہیں

جوہری پر ترے در دنداں
آب و دانہ حرام کرتے ہیں

خط قسمت پڑھا نہیں جاتا
صرف منطق تمام کرتے ہیں

یا الٰہی حلال ہوں واعظ
دخت رز حرام کرتے ہیں

آپ کی منہ لگی ہے دختر رز
باتیں ہونٹوں سے جام کرتے ہیں

چلی دنیا سے ہم پئے عقبیٰ
کوچ بھر مقام کرتے ہیں

اپنے دل پر ہے اختیار ہمیں
ملک کا انتظام کرتے ہیں

قابل گفتگو رقیب نہیں
آپ کس سے کلام کرتے ہیں

رات بھر میرے نالۂ پر درد
نیند ان کی حرام کرتے ہیں

ظلم ہی احمقوں کی منہ زوری
تنگ یہ بے لگام کرتے ہیں

دل سے رنگ دوئی مٹاتے ہیں
زخم کا التیام کرتے ہیں

اے صباؔ کیوں کسی کا دل توڑیں
کعبے کا احترام کرتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse