عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
by نظیر اکبر آبادی

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے

ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں لیکن
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے

زخم اس تیغ نگہ کا مرے دل نے ہنس کر
اس مزے داری سے کھایا ہے کہ جی جانے ہے

اس کی دزدیدہ نگہ نے مرے دل میں چھپ کر
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانے ہے

بام پر چڑھ کے تماشے کو ہمیں حسن اپنا
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانے ہے

اس کی فرقت میں ہمیں چرخ ستم گار نے آہ
یہ رلایا ،یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے

حکم چپی کا ہوا شب تو سحر تک ہم نے
رتجگا ایسا منایا ہے کہ جی جانے ہے

تلوے سہلانے میں گو اونگھ کے جھک جھک تو پڑے
پر مزا بھی وہ اڑایا ہے کہ جی جانے ہے

رنج ملنے کے بہت دل نے سہے لیک نظیرؔ
یار بھی ایسا ملایا ہے کہ جی جانے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse