عشق میں کیا ہاتھوں سے کسی کے دامن ہستی چھوٹ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق میں کیا ہاتھوں سے کسی کے دامن ہستی چھوٹ گیا
by سراج الدین ظفر

عشق میں کیا ہاتھوں سے کسی کے دامن ہستی چھوٹ گیا
شمع کوئی خاموش ہوئی یا کوئی ستارا ٹوٹ گیا

کھیل رہی ہے برق تبسم پھول سے نازک ہونٹوں پر
جانیے کس کی موت آئی ہے کس کا مقدر پھوٹ گیا

کون تھا یہ بیمار محبت جس کی بالیں پر آ کر
حسن بھی دریا دریا رویا عشق بھی سینہ کوٹ گیا

تیری بھی تصویر تھی اس میں اس کا مجھ کو رونا ہے
ورنہ دل کی ہستی کیا ہے شیشہ تھا سو ٹوٹ گیا

سیل محبت کے تھا مقابل دل کا حباب نازک بھی
لیکن یہ اب یاد نہیں ہے کب ابھرا کب پھوٹ گیا

عشق نے کیسی آفت ڈھائی سب میخانے خالی ہیں
کون و مکاں کی ساری مستی ان آنکھوں میں کوٹ گیا

آہ محبت کا رشتہ تھا نازک سے بھی نازک تر
اب اس کو کس طرح سے جوڑیں ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا

اول اول ذوق محبت تھا مستیٔ بے پایاں
آخر آخر وقت وہ آیا سحر محبت ٹوٹ گیا

ناز مری سرمستی کو کیا کیا تھا شراب و ساقی پر
اس کی آنکھوں کو جو دیکھا ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا

رات کسی کی بزم میں گو بیدار تھا میں ہشیار تھا میں
لیکن کوئی آنکھ بچا کر دل کی بستی لوٹ گیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse