عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
by جگر مراد آبادی

عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ

گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ

شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ

ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ

ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ

ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگان شباب ہیں ہم لوگ

تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ

تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ

گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ

خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ

ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ

جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ

ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ

ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ

جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ

ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی
محرم آں جناب ہیں ہم لوگ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse