عشق میں دوستو مزا بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق میں دوستو مزا بھی ہے  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

عشق میں دوستو مزا بھی ہے
سخت آفت بھی ہے بلا بھی ہے

بوسہ تو مل چکا مجھے سرکار
میری اک اور التجا بھی ہے

مجھ سا عاشق کہو خدا کی قسم
کوئی دنیا میں دوسرا بھی ہے

وعدہ کر کے بتو نہ ہم سے پھرو
کچھ تو دل میں ڈرو خدا بھی ہے

تیرے اس جور کی ہے کچھ حد بھی
اس ستم کی کچھ انتہا بھی ہے

آج جاتا ہوں اس کے کوچے کو
ساتھ میرے مری قضا بھی ہے

مجھ سے کہتے ہیں اب ترے دل میں
اور کوئی مرے سوا بھی ہے

ایسے معشوق ہوتے ہیں کم یاب
با وفا بھی وہ با حیا بھی ہے

میں نے چھیڑا جو بزم میں تو کہا
بے حیا تجھ کو کچھ حیا بھی ہے

سچ کہو رنجؔ سا کوئی شاعر
حیدرآباد میں ہوا بھی ہے


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.